از: ابواللیث الحسنی کھگڑیاوی
متعلّم
دارالعلوم دیوبند
ہرچند کہ مشرق اسلامی کے اس علاقے
میں بھی، جو مطلع اسلام، مہبط وحی الٰہی، بعثت گاہِ
نبی اعظمﷺ سے دور افتادہ ہے، ماضی بعید سے ہی،
اسلامی تعلیمات واحکامات پڑھنے، پڑھانے اور اسلامی تبلیغ
ودعوت پھیلانے، اپنانے، آنکھوں سے لگانے، دل میں بسانے اور اس
کی ہمہ گیر خدمتوں کا پرعزم حوصلہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے؛ چنانچہ دینی
شعور اور اسلامی تہذیب وتمدن اور اس کے تحفظ وبقاء کے لیے اس روئے
زمین پر دو اہم اور بڑی تحریکیں ہیں:
(۱)
دارالعلوم دیوبند (۲) تبلیغ
ودعوت
بلاتعیین
رتبہ دونوں اسلامی دنیا کی عظیم تحریکیں ہیں؛
بل کہ دونوں اغراض ومقاصد کے لحاظ سے انتہائی قریب ترہیں۔
یہاں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں مکتب فکر کی وضاحت اور
ان کے مقصد اولیں کی طرف قدرے اشارہ کروں۔
دارالعلوم
دیوبند اور اس کا نصب العین
دارالعلوم دیوبند بلاشک وشبہ کتاب
وسنت کا امین، متاع دین ودانش کا نگہبان، اسلامی تعلیمات
وروایات کا پاسبان، علم وعرفان کا سنگم، ہندوستان میں تحفظ دین
کی اولیں کوشش کا مظہر جمیل، علمائے حق کے جذبۂ ایثار
وقربانی کی لازوال یادگار، اکابر کی آہ سحرگاہی
ودعائے نیم شبی کا ثمرہ اور اسلام کے تحفظ وبقا کا مرکز ہے، یہی
اس عظیم ادارے کی تحریک کے اغراض ومقاصد ہیں، جن کو
بالفاظ دیگر، حضرات اکابر کی مختلف تحریرات اور دارالعلوم دیوبند
کے قدیم دستور اساسی کی روشنی میں یہ بھی
کہا جاسکتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند اور اس جیسے دینی
ادارے کا نصب العین قرآن کریم، حدیث، فقہ، عقائد ودیگر
اسلامی علوم وفنون کی تعلیم دینا مسلمانوں کو مکمل اسلامی
معلومات فراہم کرنا، اسلامی اخلاق واعمال کو عام کرنا، طلبہ میں اسلامی
روح پیدا کرنا، تقریر وتحریر کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ
واشاعت کرنا، اسلام کے خلاف اٹھنے والے ہر فتنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا وغیرہ
وغیرہ(۱)
دعوت
وتبلیغ کی حقیقت وضرورت
وہ
مقدس ہستیاں، جو لوگوں کو تاریکی سے نور کی طرف، گمراہی
سے ہدایت کی طرف، تنگی سے کشادگی کی طرف، ظلم و زیادتی
سے عدل وانصاف اور حیوانیت وشیطانیت سے ہٹاکر انسانیت
واعزازیت کی طرف نکالنے کے لیے پیداکی گئی،
ان کا دعوتی مشن، فکری کڑھن اور اصلاحی لگن ، وہی ہے، جس کو ہم آج دعوت وتبلیغ
کے عنوان سے موسوم کرتے ہیں۔ یقینا یہ دعوت وتبلیغ
تمام انبیاء علیم الصلاۃ والسلام کا طرئہ امتیازہے، اور
پھر انسانی، طبعی، عقلی اور شرعی جملہ حیثیتوں
سے بھی یہ ضروری ہے کہ عام خلائق کی صلاح وفلاح اور اس کی
دنیاوی واخروی بہبودی کے لیے فکر کیاجائے اور
اس بہبودی وہمدردی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس میں کسی جاہ
طلبی اور عہدہ مقصود نہ ہو، تو اس میں اسی قدر نفع عام ہوگا، خیریت
وہدایت بڑھے گی اور نہ جانے کس قدر پروردگار عالم کے یہاں انعام
واکرام میں اضافہ ہوگا۔(۲)
دارالعلوم
دیوبند اور تبلیغ ودعوت
دارالعلوم
دیوبند تاریخ کے لحاظ سے موجودہ دعوت وتبلیغ پر مقدم ہے؛ کیوںکہ
دارالعلوم دیوبند کا قیام ۱۵؍محرم
الحرام ۱۲۸۳ھ
مطابق ۳۰؍مئی ۱۸۶۶ء میں
عمل میں آیا۔(۳) جب کہ وہ تبلیغ
ودعوت ، جو برسوں سے پژمردہ ہوگئی تھی، اسے اللہ نے دارالعلوم دیوبند
ہی کے فرزند مبلغ اسلام حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ کی
محنت وکوشش کے نتیجے میں دوبارہ زندہ کیا، جو تقریباً تیرہویں
صدی ہجری کا زمانہ ہے(۴)، گویا یہ تبلیغ کی
موجودہ شکل دارالعلوم دیوبند کی ہی فکری اساس کی ایک
عظیم تحریک ہے، جو دوسری شکل میں وجود میں آئی؛
خلاصہ یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند اور تبلیغ ودعوت اسلام
ومسلمانوں کی ہمہ گیر خدمتوں کے لحاظ سے ایک دوسرے کا ساجھے دار
اور معاون ہے۔
دارالعلوم
دیوبند کی پرواز
مادرعلمی دارالعلوم دیوبند
اپنے قیام کے بعد جس اسلامی علوم وفنون کی تعلیم واشاعت،
ملک وملت کی دینی ودنیاوی قیادت، تزکیۂ
اخلاق، وعظ و تذکیر، تصنیف وتالیف، صحافت وخطابت، دعوت و ارشاد
اور ملک کی آزادی کے سلسلے میں، جو خدمات انجام دی
وہ تاریخ کا روشن باب اور خدمات کا حسین گلدستہ ہے، علاوہ ازیں
اس ادارے نے ایسے ایسے رجال کار تیار کیے، جو علم میں
رسوخ، مطالعہ کی وسعت کے ساتھ ساتھ مؤمنانہ فراست، حکیمانہ
صلاحیت، ملہمانہ بصیرت، خلوص نیت، ولولۂ دینی،
جوش ایمانی، ایثار وقربانی، جذبۂ خدمت کی
فراوانی، تواضع وللہیت، اتباع سنت، انابت الی اللہ جیسے
اوصاف وکمالات سے متصف تھے، جنھوں نے عالم اسلام میں ایسے ایسے
نقوش ثبت کردیے جو برسوں باقی اور جاری وساری رہیں
گے؛ بل کہ یوں کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ دارالعلوم دیوبند نے اسلام
کی تحریک اور نئی تاریخ دوہرائی، دینی
علوم کو غذا پہنچائی اور امت مسلمہ
کو صحیح دین سے اور قرآن وحدیث سے منشائے نبوی اور
احکامِ الٰہی سے روشناش کرایا۔(۵)
تبلیغ
ودعوت اور اس کی نشوونما
دعوت
وتبلیغ کے متعلق خطیب العصر علامہ عبدالشکور صاحب دین پوریؒ
نے یہ فرمایا: الیاس کی محنت ہے کہ جو لوگ فرض نہیں
پڑھتے تھے آج ان کی تہجد قضا نہیں ہوتی، جن لوگوں کی
نگاہیں غلط تھیں ان کی ادائیں بھی بدل گئیں،
جن کی فضائیں ابرآلود تھیں آج روشن وتابناکی
کی آسمان میں بدل گئیں(۶)، ہزاروں نہیں؛
بل کہ لاکھوں انسانوں نے اس مشرب سے سیرابی حاصل کی ہے اور
کررہے ہیں، اس جدوجہد کی برکت سے جو راہ راست سے دور تھے، جنھیں
کلمہ تک یاد نہیں تھا، جو قرآن کی عبارتوں، حدیث
کے ترجموں اور دین کی تعلیمات سے بے بہرہ تھے، آج جب وہ
اس دعوتی تحریک سے جڑگئے تو ان تعلیمات واحکامات کی حصول یابی
کے بعد دوسروں تک بھی اسے منتقل کرنے کی فکر میں لگ گئے اور لگے
ہی رہے، بالفاظ دیگر اللہ کے حبیب حضرت محمدﷺ کی
لائی ہوئی شریعت واحکامات کو پہنچانے میں تن من دھن کی
بازی لگارہے ہیں اور لگاتے رہیں گے، یہاں تک کہ نبی
کا یہ فرمان صادق آجائے: (عن
المقداد أنَّہ) یقولُ لا یَبقٰی علی ظھرِ
الأرضِ بیتُ حدرٍ أو وَبرٍ إلاّ أدخلَہ اللہُ
کلمۃَ الإسلام یعنی
اللہ کے نبی کا یہ دین ہر پکے اور کچے گھر میں داخل
ہوجائے۔(۷)
چنانچہ
آج اس کا خوب خوب مشاہدہ ہورہا ہے، مولانا محمد الیاسؒ صاحب نے
یہ جماعت جو تیار کی ہے، اگر یہ اسی طرح ملک ملک، دیہات
دیہات، شہر شہر، محلہ محلہ پھرتی رہی تو ان شاء اللہ ہر گھر
مسلمانوں، نمازیوں اور دین داروں سے بھرجائے گا، اللہ اللہ کی
پکار، اسلام ہی اسلام کی صدا پوری دنیا میں گونجے گی۔
دارالعلوم
دیوبندمیں تبلیغی جماعت کی محنت
اللہ تعالیٰ کا بے پایاںکرم
ہے کہ ما شاء اللہ طلبہ کے ساتھ بعض اساتذہ بھی ہر ہفتہ اللہ کے دین کی
نشر واشاعت کے لیے قریہ قریہ پھرتے ہیں؛ بل کہ طلبہ چھٹیوں
اور رمضان کے موقع پر چلہ اور فارغ ہونے کے بعد ایک سال لگاتے ہیں، جس
سے ان کے اندر دینی وعملی انقلاب آجاتا ہے؛ بل کہ اپنی
اصلاح کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کو صراط مستقیم کا پیغام
پہنچاتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ نبی کی
دعوت، جدوجہد اور قول وعمل کا سب سے بڑا محرک رضائے الٰہی پیدا
ہوجائے، کوئی چیز اللہ کی رضاء کے سوا ان کے سامنے نہیں
ہوتی کہ یہ ملے یا وہ ملے(۸)، بل کہ وہ صحیح
معنوں میں خلوص وللہیت کا پیکر بن کر احکام خداوندی اور
تعلیماتِ نبوی کو عام کرتے ہیں، ہدایت سے بے بہرہ لوگوں
کو آبِ ہدایت سے سیراب کرتے ہیں، ان کی زندگی
کے نوک وپلک درست کرنے میں دل وجان سے کوشش کرتے ہیں اور اخلاص
واستقلال، توکل واعتماد اور زہد وتقویٰ کے ساتھ ہر غریب وامیر،
چھوٹے، بڑے اور دین سے بے خبر اَن پڑھ لوگوں کو ایمان وہدایت کی
دعوت پیش کرتے ہیں، اپنی دعا وتسبیح اور محنت وکوشش کے ذریعہ
ان کی زندگی کو اطاعت وسنت سے آراستہ وپیراستہ کرتے ہیں۔
اگر
ان کی زندگی کا قریب سے جائزہ لیا جائے تو ایسا
معلوم ہوگا کہ یہ لوگ درحقیقت صحابہؓ کی زندگیوں کو
اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں، وہ اس منظر کی تاریخ دوہراتے ہیں۔
خود
نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا
نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
مأخذ
ومراجع
(۱) ص:۹، خطبۂ صدارت
کل ہند اجلاس عام رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند،
منعقدہ ۱۴؍مئی ۲۰۰۷ء و
ص:۲۹
مدارس اسلامیہ کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کی حقیقت۔
(۲) ص:۷، اسلام اور فریضۂ
تبلیغ : مولانا حسین احمد مدنی۔
(۳) ص:۴۰،
نقوش اسلام مارچ ۲۰۰۶ء۔
(۴) ص:۳، دارالعلوم دیوبند
کے ماضی وحال سے متعلق کچھ ضروری باتیں و ص:۴۲
علمائے دیوبند کون اور کیا ہیں؟
(۵) ماخوذ
خطبہ صدارت مذکورہ۔
(۶) ص:۳۱۱،
خطبات دین پوری۔
(۷) ص:۱۶،
مشکوٰۃ شریف۔
(۸) ماخوذ
از کتاب ’’دین کا نبوی مزاج اوراس کی حفاظت کی ضرورت‘‘۔
٭ ٭ ٭
------------------------------------------
دارالعلوم ، شماره 6، جلد: 95 رجب 1432ہجری مطابق جون 2011 ء